معاشرے کی بربادی کیلئے منشیات پہلی سیڑھی از قلم :‌  مہوش ممتاز بیگ

Mehwish Mumtaz Baig

نشہ ہمارے معاشرے کا ایک ناسور ہے-جو معاشرے کےرگ و پے میں تیزی سے سرایت کر رہا ہے- نشہ ایک لعنت ہے جس کا اعتراف ہم سب بڑی دلیری سے کرتے ہیں- لیکن ہم سب اس حقیقت سے روشناس ہونے کے باوجوداس نشے کی لت میں گرفتار ہو جاتے ہیں-نشہ ایک ایسی بیماری جس کی بدولت نہ جانے کتنی جانیں موت کے گھاٹ اتر گئے ہیں- نہ جانے کتنے خاندان ابھی بھی اس عذاب میں مبتلا ہو رہے ہیں- اس نئے اور ماڈرن زمانے میں ہونے اور جدید ٹیکنالوجی ہونے کے باوجود منشیات ہمارے نوجوان نسل کو تباہ وبربادکرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑ رہا ہے- منشیات کا سلسلہ آج کے اس دور سے نہیں بلکہ برسوں سے چلتا آرہا ہے -جس کے روک تھام کے لئے ہم سب کوشاں ہیں- مگر کامیابی کا دروازہ دور دور تک نظر آنا مشکل سے مشکل تر لگ رہا ہے- اس وقت نوجوان نسل مختلف منشیات ہیروئن،شراب، چرس، گانجا،افیون ،شیشہ ،حشیش،والیم، کوکین، الکوحل، تمباکو(سیگریٹ نوشی) وغیرہ میں مبتلا ہیں- نشہ کی ابتدا کے لیے سگریٹ نوشی ایک اہم کردار ادا کرتا ہے- ہر خاص وعام شخص سگریٹ( تمباکو) کا استعمال زوروشور سے کرتا ہے-جیسے سگریٹ (تمباکو) نشہ کی فہرست میں آتا ہی نہیں ہے- ایک طرف تو ہمارے حکمران بڑے اچھے اور خوبصورت انداز میں مختلف اشتہارات دیتے نظر آتے ہیں کہ سگریٹ نوشی صحت کے لیے مضر ہے وغیرہ وغیرہ- اور دوسری طرف انہیں  کے ہاتھوں میں سگریٹ کے پیکٹس نظر آتے ہیں -اب یہاں قارئین سے میرا ایک سوال ہے کہ کیا یہ جو لوگ خود نشہ کا بہترین انداز میں استعمال کرتے ہیں کیا وہ دوسروں کو اس دلدل میں گرنے سے روک سکتے ہیں؟ خیر یہاں سیاستدانوں اور حکمرانوں کی بات نہ ہی کی جائے تو بہتر ہوگا-

دشمنوں کی سازش کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے ہاں مختلف علاقوں میں تقریبا ایک ایک مہینے کے اندر ایک ایک گھرانے کا چراغ اس بیماری میں مبتلا کروانے میں یہ کامیاب ہو جاتے ہیں- یہ سب کچھ ایک منظم نظام کے تحت کیا جا رہا ہے-تاکہ ہم سب انسانیت کے تمام درجوں سے نیچے گر جائیں اور ملک و قوم کی تعمیر و ترقی کی بجائے اسکے بنیادوں کو کھوکھلا کر کے دوسروں کے ہاتھوں اپنی عزتِ نفس کے ساتھ ساتھ ملک کو بھی بیچ دیں اور نئے سرے سے غلامی کی زنجیروں کا طوق پہن سکیں- آج کل دشمن اپنی اس سازش کو کامیاب کرنے کے لئےہرحد پارکررہا ہے-لیکن یہاں کچھ کردار کو سامنے لانا چاہتی ہوں جو اس عمل کو روکنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں – منشیات کی روک تھام کے لئے سب سے زیادہ پولیس اہلکاروں کی محنت سامنے آتی ہے – اس میں کوئی شک نہیں کہ پولیس ڈیپارٹمنٹ کو ہمارا معاشرہ کس نظریہ سے دیکھتا ہے- مگر اس حقیقت سے انکار کرنا ہمارا بیوقوفانہ رویہ ہوگا-اگر ہم اردگردنظر دوڑائیں تو آج بھی نہ جانے کتنے منشیات کے لین دین کا سلسلہ پولیس اہلکاروں کی بدولت ناممکن ہو پایا ہے-جہاں اس عمل کے روک تھام کے لئے پولیس کا مثبت رویہ سامنے آتا ہے وہی کہیں نہ کہیں اس عمل کا معاشرے میں شورشرابہ کرنا بھی پولیس کی طرف منفی اشارات بھی کرتے ہیں- کیونکہ بغیر کسی سرپرستی کے اتنا بڑاکام (منشیات کا لین دین) ہونا ناممکن ہے-دشمن اور مجرموں کو بھی حکومت اور پولیس اہلکاروں کا ساتھ نصیب نہ ہو تو یہ سب ان کے لیے ممکن ہی نہیں ہے-

اب ہمارے لیے یہ بات لمحہ فکریہ ہے کہ ہمیں اس لعنت سے کیسے چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا- جس کی وجہ سے نہ صرف ایک گھر،ایک خاندان،ایک علاقہ، بلکہ پورا ملک ہی تباہ وبرباد کا شکار ہو رہے ہیں- ساتھ ہی ساتھ نئی نسلوں کو کس طرح اس نشے کے پنجہ وستم سے بچایا جاسکتا ہے- کیونکہ اگر ہم اس عمل کے روک تھام کے لئے بھی چپ رہینگے تو جلدازجلد ہمارا وجود ہی اس صفہ ہستی سے معدوم ہو جائے گا-اس عمل کے سدِ باب کو بند کرنے کے لئے ہم سب کو اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہو گا- چاہے پھر اس کی شروعات بری صحبتوں سے دوری اختیار کرنا ہی کیوں نہ ہو- کیونکہ بری صحبت بھی اس نشہ کی ابتدا کی ایک اہم وجہ ہے-معاشرے کو اس لعنت سے پاک کرنے کے لیے ہمیں ذہنی اور قلبی طور پر اپنے اسلاف کے کردار و عمل کو اپنانے کی اشد ضرورت ہے-ہمیں منافقت کو ترک کرکے سچا راستہ اپنانا ہوگا اور اس کے خلاف صدقِ دل سے کام کرنا ہوگا- اس کے خلاف نہ صرف قلمی بلکہ ہر سطح پرعملی جہاد کرنا ہوگا- اورجب تک ہمارے علماءکرام، اساتذہ کرام اور باہوش طبقہ خلوصِ نیت سےاس کے خلاف جہاد سے کام نہیں لیں گے منشیات کا طوفان بھی ختم نہ ہو سکے گا-اور جہاں تک ہو سکے حکومت اور مختلف ایجنسیوں کو بھی اس عمل کے روک تھام کے لئے اپنا کردار بخوبی ادا کرنا ہوگا-