آلات شناخت کا بیکار ہو جانا . سید کاظم علی نقوی
انسان اس بناء پر کہ اپنے وجود سے باہر کے عالم سے بھی آگاہ ہوسکے کچھ وسائل وآلات سے فائدہ اٹھاتا ہے ، جنہیں آلات شناخت کہاجاتا ہے۔
ان میں سے ایک حصہ تو “ذات کے اندر”ہوتاہے اور دوسرا حصہ “ذات سےباہر” عقل و خرو اور وجدان و فطرت تو ذات کے اندر والے شناخت کے آلات ہیں اور انسان کے حواس ظاہری ۔ جیسے بینائی و شنوائی – ذات سے بابر کے آلات شناخت ہیں – ان خدا داد وسائل سے اگرصحیح طور پر استفادہ کیا جائے تو روز بروز زیادہ قوی اور زیادہ طاقتور ہوتے جائیں گے اور مزید بہتر اور مزید دقیق حقائق کی شناخت کریں گے۔
لیکن اگر وہ ایک مدت تک انحرانی راہوں میں چلتے رہیں یا ان سے بالکل استفادہ نہ کیا جائے تو آہستہ آہستہ کمزور پڑ جائیں گے یا بالکل بگڑجائیں گے اور حقائق کی برعکس نشاندہی کریں گے ، ٹھیک ایک صاف و شفاف آئینہ کی مانند کہ جسے ایک دبیز وضخیم گرد و غبار ڈھانپ لے یا زیادہ اور گہری خراشیں اس پرلگ جائیں تو پھر اس میں کوئی چیز بھی دکھائی نہیں دیتی اور اگر دکھائی دے بھی تو ہرگز حقیقت کے مطابق نہیں ہوگی ۔
انسان کے یہی غلط اعمال اور انحرافی فائدے اٹھانا ، آلات شناخت کی اس عظیم نعمت کو اس سے چھین لیتے ہیں ۔ اسی بنا پر قصور وار وہ خود ہے اور اس کا گناہ بھی خود اسی کی گردن پر ہے۔
اوپر والی آیات اس اہم اور سرنوشت ساز مسئلہ کی بولتی ہوئی تصویر میں مستکبرہوس بازوں اور متعصب خود خواہوں کو ان سے تشبیہ دی گئی ہے کہ جو طوق و زنجیر میں گرفتار ہیں۔ یہ وہی ہوا و ہوس کبر و غرور اوراندھی تقلید کی زنجیریں ہیں کہ جو خود انہوں نے اپنے ہاتھ اور گردن میں ڈالی ہیں اور یہ ان لوگوں کے مشابہ ہیں کہ جو ایک قوی اور ناقابل عبور چار دیواری کے محاصرے میں آگئے ہیں ۔
اور دوسری طرف سے ان کی آنکھیں بند اور نابینا ہیں۔
صف طوق و زنجیر ہی ان کو حرکت سے روکنے کے لیے کافی ہیں جبکہ دو عظیم دیواریں تھیں ان کی فعالیت میں مانع ہیں اور ان کی آنکھیں بھی کچھ دیکھنے کے قابل نہیں ہیں۔
یہ دونوں دیواریں گویا اس قدر بلند اور نزدیک ہیں کہ جو انہیں کچھ دیکھنے نہیں دیتیں اور انہیں حرکت سے بھی محروم کر دیتی ہیں ۔ ہم نے باربا بیان کیا ہے کہ انسان کا ہدایت قبول کرنا اس وقت تک ہے جب تک کہ وہ اس مرحلے تک نہ پہنچ گیاہو۔ لیکن جب وہ اس مرحلے تک پہنچ جائے تو پھر تمام انبیاء واولیاء بھی جمع ہوجائیں اور تمام کتب آسمانی اس کے سامنے پڑھی جائیں توبھی اس پر مؤثر نہ ہوں گی۔ اور یہ جو روایات اسلامی اور اسی طرح آیات قرآنی میں تاکید کی گئی ہے کہ اگر کسی انسان سے کوئی لغزش ہو جائے اور کوئی گنا اس سے سرزد ہوجائے تو فورًا توبہ کرلے اور خدا کی طرف لوٹ آئے اورلیت ولعل ، تاخیر اور اصرار وتکرار سے پرہیز کرے ، تو یہ اس لیے ہے کہ معاملہ اس حد کا نہ پہنچ جائے کہ جو زنگ لگ چکا ہے اترنے ہی نہ پائے ، چھوٹی چھوٹی رکاوٹوں کو ایک بڑی رکاوٹ میں تبدیل ہونے سے پہلے ہی ختم کردے اور پیش رفت اورحرکت کی گنجائش باقی رکھے اور غبار کو اپنی انکھوں سے ہٹا د ے تاکہ راستے کو واضح طور پر دیکھ سکے۔
2- آگے اور پیچھے حائل دیواریں: بعض مفسرین نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ حرکت کو جاری رکھنے میں اصل رکاوٹ تو آگئے اور سامنے کی رکاوٹیں ہوتی ہیں ، پیچھے کی دیوار کے کیا معنی ہیں ؟ بعض نے تو یہ جواب دیا ہے کہ انسان دو قسم کی ہدایت کا حامل ہے: 1- نظری اور استدلالی ہدایت اور 2- فطری و وجدانی ہدايت سامنے کی دیوار اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ ہدایت نظری سے محروم ہوگا ، وہ چاہے گا کہ پیچھے کی طرف لوٹ جائے اور ہدایت نظری کی طرف نظر کرے تو پیچھے کی دیواراسے فطرت کی طرف بازگشت سے روکے گی۔ ؎1
بعض دوسرے مفسرین نے یہ کہا ہے کہ آگے والی دیوار ان رکاوٹوں کی طرف اشارہ ہے کہ جو اسے آخرت اور سعادت جاودانی تک پہنچنے سے روکتی ہیں اور پیچھے والی دیوار وہ چیز ہے کہ جو اسے دنیا کی سعادت اور آرام و سکون تک پہنچنے نہیں دیتی۔ ؎2
یہ احتمال بھی آیت کی تفسیر میں موجود ہے کہ انسان اسی وقت مقصد تک پہنچنے کی راہ میں رکاوٹ کاسامناکرتا ہے تو وہ پیچھے کی طرف لوٹتا ہے تاکہ مقصد تک پہنچنے کے لیے کوئی دوسرا راستہ اختیار کرے لیکن جب دونوں طرف ایک ایک دیوار بن چکی ہو تو وہ ہرحالت میں مقصد کی طرف جانے سے محروم ہوجائے گا۔ ضمنی طور پر اس سوال کا جواب واضح ہوگیا کہ دائیں اور بائیں طرف دیوار کا کوئی بیان کیوں نہیں ہوا کیونکہ دائیں بائیں چلنا کبھی بھی انسان کو مقصد تک نہیں پہنچاتا ، اسے تو کوئی راستہ آگے کی طرف ہی نکالنا چاہیے۔
علاوہ ازیں عام طور پر دیوار ایسی جگہ پر بنائی جاتی ہے کہ جب دائیں اور بائیں طرف راستہ بند ہو اور دونوں کے درمیان صرف ایک ہی گزرگاہ موجود ہو تو دیوار تعمیر ہوجانے سے وہ گزرگاہ بھی بند ہوجاتی ہےاور عملی طور پر انسان محاصرے میں آجاتا ہے۔
3- انفس و آفاق کی دنیا میں میرے محرومی : خدا کی شناخت کے لیے عام طور پر دو راستے موجود ہیں۔ ایک تو خدا کی ان نشانیوں کا مطالعہ کہ جو انسان کے جسم و روح میں موجود ہیں اور انہیں “آیات انفس” کہا جاتا ہے۔ دوسرا ان آیات اور نشانیوں کا مطالعہ کہ جو اس کے وجود سے باہر زمین و آسمان ، ثوابت و سیارات اور کوه و دریا میں پائی جاتی ہیں ۔ انہیں “آیات آفاق” کہتے ہیں کہ جن کی طرف قرآن مجید سوره حم السجده کی
آیہ 53 میں اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے: سنريهم آياتنا في الأفاق و في انفسهم حتى يتبين لھم انه الحق ہم عنقریب انہیں آفاق و انفس میں اپنی نشانیاں دکھائیں گے تاکہ ان پر ثابت ہو جائے کہ خدا حق ہے۔
جس وقت انسان کی قوت شناخت بے کار ہوجاتی ہے تو آیات انفس کا مشاہدہ بھی اس پر بند ہو جاتا ہے اور آیات آفات کا مشاہدہ بھی۔ زیر بحث آیات میں “إنا جعلنا في اعنا قھم اغلالاً فھي الى الأذقان فھم مقمحون ” کا جملہ پہلے معنی کی طرف اشارہ ہے کیونکہ طوق ان کے سروں کو اسی طرح سے اوپر کیے ہوئے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو بھی دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتے اور آگے اور پیچھے کی دیواریں ان کی آنکھ کو اسی طرح سے اپنے اطراف کے مشاہده سے باز رکھتی ہیں وہ دیکھنے کی جتنی بھی کوشش کرتے ہیں اس دیوار کے سوا انہیں کچھ دکھائی نہیں دیتا اور آفاقی آیات کے مشاہدہ سے بھی محروم رہ جاتے ہیں ۔