محمد اعظم سلفی مغل کا تازہ کالم

کیلنڈر کی تاریخوں کے بدلنے سے انسان کے ماہ وسال بھی ماضی کا حصہ بن جاتے ہیں۔گھڑی کی سوئیوں کی مقررہ گردش کے بعد2016 اپنے اختتام کو پہنچااور 2017 کا سورج نئی امنگوں اور عزم کے ساتھ طلوع ہونے کے بعد ماضی کا حصہ بننے کیلیئے رواں دواں ہے۔فطرت کا تقاضا ہے کہ جو چیز انسان کے لیئے جتنی ذیادہ ضروری ہے اسکا ملنا اتنا ہی آسان ہوتا ہے۔آپ ایسے سمجھیئے کہ ہوا انسان کےلیئے سب سے ذیادہ ضروری چیز ہے اللہ تعالی نے اسکا حصول اتنا ہی آسان کردیا ہے کہ انسان سویا ہوابھی باآسانی اس سے استفادہ حاصل کررہا ہوتا ہے۔ ہوا کے بعد انسان کے زندہ رہنے کے لیئے پانی بھی بے حد ضروری ہے۔اور پانی بھی وافر مقدار میں مفت میسر آجاتا ہے۔اسی طرح رب العلمین کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات سے مزین زندگی گزارنا بھی اللہ کی نعمتوں میں سےایک نعمت ہے۔کیونکہ اسلامی تعلیمات بھی انسانی ذہنیت کی روحانی غذا ہے جوکہ اللہ کی خوشنودی کے حصول کیلئے نہائت ضروری ہے۔لیکن موجودہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے دل خون کے آنسو روتا ہےکہ عصری علوم سے لبریزنوجوان اسلام کے ابتدائی احکام سے اسطرح ناآشنا ہیں جیسے وہ مسلمان ہی نہیں ہیں
استغفراللہ۔
میں آپکو اپنے ساتھ رونما ہوا ایک واقع سناتا ہوں چند دن پہلے کی بات ہے میں ظہر کی نماز ادا کرنے کے بعد مسجد میں بیٹھا اذکار میں مصروف تھا۔میرے ایک دوست تشریف لائے سلام کے بعد فرمانے لگے اعظم بھائی مجھے لاہور ضروری کام کیلیئے جانا ہےتو آپ بھی تیار ہوجائیں۔ میں نے والدہ محترمہ سے اجازت طلب کی تو والدہ محترمہ نے بادل نخواستہ اجازت دےدی اور اپنی دعاؤں کے سائے تلے رخصت کرتے ہوئے فرمایا ًًً(پتر چھیتی واپس آجایا جے) خیر میں گاڑی میں انکے ساتھ براجمان ہوا تو راستے میں الفاظ کا دلچسپ تبادلہ ہوتا رہا آخرکار ہم مذکورہ مقام پر پہنچے محترم عبدالسلام مکی صاحب نے اپنا کام نپٹایا اور اسکے بعد فرمانے لگے اعظم بھائی عصر کی نماز کا ٹائم ہوچکا ہے آؤ اللہ کے حضور سربسجود ہوکر فرض ادا کریں خیر ہم نماز کیلیئے مسجد میں پہنچے دیکھا کہ مولانا صاحب سلام پھیر چکے تھے محترم مکی صاحب فرمانے لگے حافظ اعظم صاحب میں نے ایک حدیث پڑھی تھی کہ( رسول اللہ صلی ﷲ علیہ وسلم کا فرمان ذیشان ہے کہ جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا اکیلے پڑھنے سے ستائیس درجے بہتر ہے)میں نے کہا مکی صاحب حدیث گوش گزار کرنے کا مقصد بتاسکتے ہیں فرمانے لگے اسکا مقصد یہی ہے کہ نماز باجماعت کروالی جائے.میں نے کہا ضرورجماعت ہی کروانی چاہیئے امامت کی ذمہ داری بھی مجھے سونپی گئی۔اس سے پہلے کہ بات کو مزید طول دیا جائے ایک حدیث ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں (رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے کہ جب دو آدمی جماعت میں شامل ہوں تو دونوں اکٹھے کھڑے ہونگےبعد میں آنے والا شخص امام کے ساتھ کھڑے مقتدی کو پیچھے کھینچ کر امام کے پیچھے کھڑے ہونگے )دوران جماعت ایک خوبرو شکل کا مالک نوجوان میرے ساتھ کھڑے مقتدی کو پیچھے کرنے کی بجائے اسکے ساتھ ہی کھڑا ہوگیاجوکہ علوم دینیہ سے ناواقفیت کا کھلا اظہار تھا۔نماز مکمل ہوئی توبعد میں ہم نے ہمت کرکے نوجوان سے سلام کیا اور حال احوال پوچھا۔میں نے ان سے پوچھا بھائی جان آپکی تعلیم کیا ہے ۔؟مدرارس اور مدارس کے طلباء پر زہر آلود تیروں کا نشانہ بنانے والو۔
اس نوجوان نے اپنی تعلیم کے متعلق بتاتے ہوئے کہا کہ میں ایم۔ایس۔سی پارٹ2 کا سٹوڈنٹ ہوں ۔
محترم قارئین۔ایسی تعلیم پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہےجو اسلام سے قرآن سے دوری کا سبب بنے۔پاکستان کو صرف ڈاکٹرز ۔انجینیرز ۔پروفسرز ۔ سائنسدانوں کی ہی ضرورت نہں بلکہ جہاں جسمانی بیماری کی تشخیص کےلیئے ڈاکٹرکی ضرورت ہوتی ہے وہاں روحانی بیماریوں کی تشخیص کے لیئےعلماءکرام کی اسلامی جمہوریہ پاکستان کو اشد ضرورت ہے ۔
جبکہ وطن عزیز کے نوجوانوںکو عالمی شہری بننے اور بنانےپر قائل کیا جارہا ہےاسکے لیئے میڈیا کا بے دریغ استعمال جس میں فلمیں ۔ڈرامے ۔تھیٹر ۔حیاباختہ اشتہارات اور نت نئے فیشن متعارف کروانے کے بعد باقاعدہ پریکٹل کروائے جاتے ہیں۔سائنس وٹیکنالوجی میں ہمارا ملک برابر ترقی کرہاہےمگر اسلام سے کھلی ناواقفیت ۔اسلامی پستی وزوال اس ملک کا مقدر بن چکا ہے۔اسلامی نظریاتی ملک میں حقیقی ۔اسلامی ۔نظریاتی۔جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے مدارس اور مدارس کے طلباء کو معاشرے کےٹھکرائے ہوئے لوگ کہ کریبوست سے لبریز دماغوں سے زہرآلود تیروں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔زمانہ بھر کےالزام ودشنام کی توپوں کا رخ ان فاقہ مستوں طرف موڑ دیاجاتاہے۔اپنوں کے ستم خوردہ غیروں کے زخم رسیدہ یہ مہمانان رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے قافلے سے جدا نہیں ہوتے۔اپنی اصلیت دکھانے والوں نے طلباء مدارس کو کنویں کا مینڈک لکھا۔نیم خواندہ ملا کے القاب سے نوازا جاتا ہے۔بسم اللہ کے گنبد میں بند کے طعنے دیے جاتے ہیں مدارس اسلامیہ کے طلباء مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انکی اسناد گوروں کے دستخطوں سے پاک ہے۔مدارس کے نصاب تعلیم پر وہ لوگ بات کرتے وخود لارڈ میکالے کے زہرآلود دماغ سے خیرات مانگتے ہیں ۔سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے سجے چہرے پر پھبتی وہ کستے ہیں جنکے انگ انگ سے نحوست ٹپکتی ہے جوحضرات رسم دنیا اور موقع دیکھ کر مدارس کو طلباء مدارس کو نشانہ تنقید بناتے ہیں انکی خدمت میں مؤدبانہ گزارش ہےکہ اگر آپکی تنقید میں وزن اور نیت میں اخلاص ہے تو کچھ وقت کے لیئے اپنے راحت کدوں چھوڑ کر ان بوریہ نشیں ملاؤں کے ساتھ وقت گزاریے تاکہ آپکو حقائق مدارس دینیہ کا قریب سے علم ہونے کے ساتھ ساتھ روحانی غذا بھی میسر آسکے اورآپکو مدرسے کی پکی ہوئی بریانی بھی پیش کی جاسکے۔
اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔