ہمارے لکھاری
All the team which is contributing with The Pk Media Via News, Articles, Colums, Stories etc. Share yourself with us by writing us about your work in journalism, your biography etc, so that we can publish it here and share it with the whole world specially overseas community.
امانت میں خیانت کرنا گناہ عظیم؛ امانت داری ایمان کی پہچان ہے!!
اللہ رب العزت و رسول کریم ﷺ اور آخرت پر ایمان رکھنے والا شخص مومن ہے اور مومن کسی کی امانت میں خیانت نہیں کر سکتا کیونکہ امانت داری پر عمل بھی ایمان کا حصہ ہے۔ نبی کریم ﷺ ظاہری اعلان نبوت کے پہلے ہی صادق الامین کے بابرکت لقب سے جانے پہچانے جاتے تھے اور آج بھی وہ لقب مواجۂِ رسول اللہ ﷺ حرمِ پاک مدینہ شریف کی جالیوں میں لکھا ہوا ہے۔ ناچیز خود حج کی سعادت سے باور ہوچکا ہے اور جالیوں کو بغور دیکھنے کا شرف حاصل کر چکا ہے جن میں آپ کا لقب مبارک ’’ صادق الامین‘‘ لکھا ہوا ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : لا ایمان لمن لا مانۃ لہ (جس کے اندر امانت نہیں اس کے اندر ایمان نہیں۔مسند احمد، جلد ۳، صفحہ ۱۳۵)۔گویا کہ ایمان کالازمی تقاضہ ہے کہ آدمی امین ہو، امانت میں خیانت نہ کرتا ہو۔ عربی زبان میں ’’امانت ‘‘کے معنی یہ ہیں کہ کسی شخص پر کسی معاملے میں بھروسہ کرنا۔ امانت میں خیانت کرنا منافق کی علامت بتائی گئی ہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: منافق کی تین علامتیں ہیں، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو اس میں خیانت کرے۔(صحیح مسلم ، ایمان کا بیان،حدیث نمبر ۱۱۸) اس حدیثِ پاک سے یہ واضح ہوگیا کہ ہر وہ چیز جو دوسرے کو اس طرح سپرد کی گئی کہ سپرد کرنے والے نے اس پر بھروسہ کیا ہو یہ اس کا حق ادا کرے گا یہ ہے امانت کی حقیقت۔ لہٰذا کوئی شخص کوئی کام یا کوئی چیز یا کوئی مال جو دوسرے کے سپرد کرے اور سپرد کرنے والا اس پر بھروسہ سے سپرد کرے کہ یہ شخص اس سلسلے میں اپنے فریضے کو صحیح طور پر بجالائے گا اور اس میں کوتاہی نہیں کرے گا ۔یہ امانت ہے۔ اور امانت کی اس حقیقت کو سامنے رکھا جائے تو بے شمار چیزیں اس میں شامل ہوجاتی ہیں۔ آج اس کا مفہوم بہت محدود سمجھا جاتا ہے ۔ ہمارے ذہنوں میں امانت کا تصور صرف اتنا ہی ہے کہ کوئی پیسے لے کر آئے اور یہ کہے کہ یہ پیسے آپ بطور امانت اپنے پاس رکھ لیجئے،جب ضرورت ہوگی اس وقت میں آپ سے واپس لے لوں گا۔امانت اس حد تک ہی محدود نہیں۔امانت کا مفہوم بہت وسیع ہے اور بہت ساری چیزیں امانت میں داخل ہیں، جن کے بارے میں اکثر وبیشتر ہمارے ذہنوں میں خیال بھی نہیں آتا کہ یہ بھی امانت ہے اور ان معاملات میں ’امانت‘ جیسا سلوک کرنا چاہیئے۔ امانت میں دیئے ہوئے مال کی حفاظت کرنا بلکہ اسی حالت میں واپس کرنا ہر کسی کی عزت و آبرو کی حفاظت کرنا، جس کا حق اس پر ہے اداکرنا، حق تلفی نہ کرنا، دغانہ دینا، دھوکا نہ دینا، غبن نہ کرنا، بددیانتی نہ کرنا،کسی کے مال کو دبالینا جو کسی نے بطور امانت رکھا ہو، کسی کام کو پورانہ کرنا یعنی ڈیوٹی (Duty)پوری نہ کرنا، کسی کے خفیہ راز جو تم کو معلوم ہیں ،دوسرے کو نہ بتانا وغیرہ وغیرہ یہ سب امانت ہی میں آتے ہیں۔خیانت جرم ہے: امانت میں خیانت کرنا انتہائی گھناؤنا گناہ ہے اور ایساگناہ ہے جس کے دائرے میں عبادات سے لے کر معاملاتِ زندگی کے تمام شعبے داخل ہیں۔ سچا مومن وہی ہے جو کسی طرح کسی بھی شعبہ میں اپنی امانت داری پر آنچ نہ آنے دے ۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: یَا اَیُّھَاالَّذِیْنَ آمَنُوْ لَا تَخُوْنُوْ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ وَتَخُوْنُوْ اَمٰنٰتِکُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنoترجمہ: اے ایمان والو، اللہ اور رسول سے دغا نہ کرو اور اپنی امانتوں میں دانستہ خیانت۔(سورہ انفال ، آیت ۲۷،کنز الایمان)اس آیت مبارکہ کا شانِ نزول بڑا پیارا ہے۔ انتہائی دلچسپ و سبق آموز واقعہ پڑھیں اور عبرت حاصل کریں۔ صحابیِ رسول ابو لبابہ ابن المنذر رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے مدینہ کے یہودی بنی قریضہ پر حضور ﷺ کا راز فاش کردیا،بتادیا۔بنو قریضہ کے لوگ اپنے مکانات میں محصور ہوگئے ، چھپ گئے ۔ حضور ﷺ نے یہودیوں سے کہا کہ تم سعد بن معاذ(رضی اللہ عنہ) کے فیصلہ پر راضی ہوجاؤ۔انہوں نے کہا کہ ابو لبابہ کو ہمارے پاس بھیج دو،ہم مشورہ کریں گے۔ ابو لبابہ کے جانے پر ان لوگوں نے پوچھا کہ بن معاذ کیا فیصلہ کریں گے ۔ ابو لبابہ رضی اللہ عنہ نے گلے پر انگلی پھیر کر کہا قتل کردیں گے۔ سب کویہ راز آپ نے بتادیا۔ ادھر اللہ کے رسول ﷺ پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ اے ایمان والو، اللہ اور اس کے رسول سے دغا نہ کرو۔ ابو لبابہ بہت شرمندہ ہوئے اور فرمایا کہ میں نے خیانت کی ہے اور اپنے آپ کو مسجد کے ستون (Pillar) پر بندھوالیا اور فرمایا اللہ کی قسم میں اس وقت تک نہ کھلو ں گا جب تک حضور مجھے کھول نہ دیں۔ جب حضور کے سامنے یہ واقعہ پیش ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایاکہ اگر لبابہ میرے پاس آجاتے تو میں ان کے لئے دعا ئے مغفرت کر دیتا اور معاف کردیتا۔کرکے تمہارے گناہ ،مانگیں تمہیں سے پناہ * تم کہو دامن میں آ،تم پہ کروڑوں درود (حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی) مگر جب وہ خانہ خدا مسجد میں پہنچ گئے ہیں تو اب میں اس وقت تک نہ کھولوں گا جب تک رب تعالیٰ ان کی توبہ قبول نہ فرمائے۔ لہٰذا آپ سات دن تک بندھے رہے۔آٹھویں دن توبہ قبول ہوئی۔ لوگوں نے بشارت پہنچائی۔ تو آپ نے کہا کہ اب حضور ہی کھولیں گے تو کھلوں گا تو آپ ﷺ نے کھو ل دیا۔ دوسری جگہ ارشاد باری ہے۔ترجمہ: اور جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے عنقریب ہم انہیں باغوں میں لئے جائیں گے جن کے نیچے نہریں رواں ہیں ،ان میں ہمیشہ رہیں گے ۔ ان کے لئے ستھری بیبیاں ہیں اور ہم انہیں وہاں داخل کریں گے جہاں سایہ ہی سایہ ہوگا۔بے شک اللہ تمہیں حکم دیتاہے کہ امانتیں جن کی ہیں انہیں سپرد کردو اور یہ کہ جب تم لوگوں میں فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو ۔ بے شک اللہ تمہیں کیا ہی خوب نصیحت فرماتا ہے۔ بے شک اللہ سنتا دیکھتا ہے۔ (سورہ نساء،آیت ۵۰ تا ۵۷، کنز الایمان) یہ ہے انعام و اکرام کی بارش امانت دار لوگوں کے لئے ۔ ہر جنتی کو کئی کئی جنتیں دی جائیں گی ،خوبصورت باغ ہوں گے ، دودھ کی نہریں ، ٹھنڈے پانی کی نہریں، کئی کئی بیویاں عطا ہوں گی، دنیا کی بیوی بھی ہوگی، خوبصورت حوریں جن کی آنکھیں بڑی بڑی ہوں گی اور خوشبو سے مہکتی ہوں گی ۔خوبصورت اتنی کہ پنڈلیوں میں آئینہ کی طرح صاف صاف Transparentکی طرح ہڈیوں کا گودا دکھائی دے گا اور یہ تمام بیویاں حوریں، حیض و نفاس ، تھوک، رینٹ(گوجی) میل اوریہاں تک کہ کج خلقی سے پاک و صاف ہوں گی، انتہائی شیریں زباں اور با اخلاق ہوں گی۔یاد رہے مذکورہ آیت کریمہ حضرت ابو لبابہ ابن المنذر رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے غزوہ بنو قریظہ کے موقع پر اپنے اہل و عیال کے تحفظ کی غرض سے نبی کریم ﷺ کے راز کو ظاہر کر دیا تھا ۔ حالانکہ بعد میں آپ کو سخت ندامت ہوئی جس کا ذکر اوپر گزر چکا ہے۔لیکن اس آیت کا حکم عام ہے اور ہر طرح کی خیانت ، بددیانتی سخت ممنوع ہے خواہ اس کا تعلق قومی و ملکی یا گھریلو معاملات سے ہوں یا ذاتی انفرادی معاملات سے ہو۔نبی کریم ﷺ نے منافق کی تین نشانیاں بیان فرمائی ہیں۔ ایک حدیث پاک میں چار نشانیاں بیان فرمائی ہیں اور اشارہ اس بات کی طرف فرمادیاکہ یہ کام مومن کے نہیں اور جس میں یہ چار باتیں پائی جائیں وہ صحیح معنی میں مسلمان کہلانے کا مستحق نہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کہ چار عادتیں جس کسی میں ہوں وہ خالص منافق ہے اور جس کسی میں ان چاروں سے ایک بھی عادت تووہ (بھی) نفاق ہی ہے، جب تک اسے چھوڑ نہ دے۔ (وہ یہ ہیں) جب امین بنایا جائے تو (امانت میں) خیانت کرے اور بات کرتے وقت جھوٹ بولے اور جب (کسی سے عہد کرے تو اسے پورا نہ کرے اور جب کسی سے لڑے تو گالیوں پر اتر آئے۔(بخاری، منافق کی نشانیوں کے بیان میں ، کتاب الایمان حدیث ۳۴)منافق کے بارے میں قرآن مجید میں ہے۔ اِنَّ المُنٰفِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الاصْفَلِ مِنَ النَّارoمنافق جہنم کے سب سے نیچے ڈالا جائے گا(القرآن)استغفراللہ !بہت سی آیاتِ مبارکہ اور احادیث پاک خزانۂ احادیث میں موجود ہیں امانت داری پر انعام و اکرام کی بارش جیسا اور اوپر مذکور ہوچکا ہے اور امانت میں خیانت پر عذاب اور پکڑ کی ۔ یہ حدیث پاک پڑھیں اور درسِ عبرت پکڑیں۔حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے موقوفاً روایت ہے کہ آدمی جہاد کرتے ہوئے راہِ خدا میں شہید ہوجائے ، اس کے سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں لیکن اس نے اگرامانت کی ادائیگی میں کوتاہی کی ہوگی تو یہ شہادت اس گناہ کی معافی کاسبب نہیں بنے گی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن آدمی کو دربارِ خداوندی میں پیش کیا جائے گا پھر اس سے کہا جائے گا کہ اپنی امانت ادا کرو تو وہ کہے گا کہ اے خدا رب العالمین !دنیا تو ختم ہوگئی ،امانت کہاں سے لاؤں؟توحکم ہوگا اسے ہاویہ (جہنم کی ایک گھاٹی) میں لے جاؤ۔چنانچہ اسے لے جایا جائے گا اوروہاں اس کی امانت بعینہ اسی طرح سامنے لائی جائے گی جیسے اسے حوالے کرتے وقت تھی تو وہ اسے دیکھ کر پہچان لے گا اور اس کو لانے کے لئے اس کے پیچھے چلے گا پھر اسے اپنے دونوں کندھوں پر اٹھا لائے گا، یہاں تک کہ اسے گمان ہوگا کہ میں اسے لے کر باہر آجاؤں گا لیکن وہ اس کے کندھے سے لڑھک کرگہرائی میں جائے گی پھر دوبارہ اٹھاکرلائے گا پھر وہی معاملہ ہوگا اور وہ ایسا ہی ہمیشہ کرتارہے گا۔(اعاذ نا للہ منہ)اس کے بعد امانت کی مزید تشریح کرتے ہوئے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نماز بھی امانت ہے،وضو بھی امانت ہے ، تولنا بھی امانت ہے ، ناپنا بھی امانت ہے ۔اور پھر کئی چیزیں گنائیں اور ان سب میں زیادہ اہم چیز ودیعتیں( یعنی دوسروں کی طرف سے رکھوائی گئی امانتیں) ہیں۔ اس روایت کے راوی حضرت زادان فرماتے ہیں کہ میں نے صحابیِ رسول حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کے پاس جاکر عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی مذکورہ روایت نقل کی تو انہوں نے اس کی تائید کرتے ہوئے فرمایاکہ وہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سچ فرماتے ہیں اور کہا تم نے اللہ تبار ک و تعالیٰ کا یہ ارشاد نہیں سنا؟اِنَّ اللّٰہَ یَامُرُوْکُمْ اَنْ تُؤدُّوْالْاَمَانَاتِ اِلٰی اَہْلِہَاoترجمہ: یقیناًاللہ تبارک و تعالیٰ تمہیں اس بات کا حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے اہل کی طرف لوٹا دو۔(رواۃ احمد ، البیہقی، شعب الایمان، حدیث نمبر۵۲۶۶/الترغیب و ترہیب مکمل صفحہ ۶۲۷)مذکورہ بالاروایت نہایت چشم کشا ہے۔ اور امانت داری کے مفہوم کو واضح کرنے والی ہے، جس کے دائرے میں عبادات سے لے کر معاملاتِ زندگی کے تمام شعبے داخل ہوجاتے ہیں۔ سچا مومن وہی ہے جو کسی بھی شعبہ میں اپنی امانت داری پر آنچ نہ آنے دے۔ قرآن مجید پوری وضاحت سے امانت میں خیانت کرنے والوں کی منافقت کا اعلان فرما رہا ہے۔ اللہ ہم تمام مسلمانوں کو امانت داری کو سمجھنے اوراس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین، ثم آمین!
حافظ کریم اللہ چشتی آف پائی خیل
حافظ کریم اللہ چشتی کا تعلق میانوالی کے علاقہ پائی خیل سے ہے۔ حافظ صاحب پیشہ تعلیم و تدریس سے بھی منسلک ہیں اور ہر موقع کی مناسبت سے کالم نگاری میں بھی اعلیٰ مہارت رکھتے ہیں ۔
ڈاکٹر تصور حسین مرزا آف پوران
ڈاکٹر تصور حسین مرزا پوران کے رہائشی ہیں اور ہومیوپیتھک ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ علامہ اقبال میڈیا پریس کلب جہلم کے بانی و صدر بھی ہیں ۔ضلعی سطح پر مثبت صحافت میں ان کا قلیدی کردار ہے جب کہ کالم نگاری میں بھی یہ لازوال صلاحیتوں کے مالک ہیں۔
پرانا قرض
ﻧﮩﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﺻﺎﺣﺐ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﯿﺴﮯ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ .. ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺑﯿﭩﯽ ﻧﮯ ﺗﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﺗﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺁﭖ ﯾﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ.ﺍﺱ ﮐﺎ ﺗﻮ ﭼﮩﺮﮦ ﮐﺒﮭﯽ ﺳﻮﺭﺝ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ . . ﮐﺠﺎ ﺍﺗﻨﯽ ﺑﮍﯼ ﺑﺎﺕ .. ﻣﺴﺰ ﺍﻧﻮﺍﺭ ﻧﮯ ﺗﯿﺰ ﺳﺎﻧﺴﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﻧﭽﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﻏﺼﮯ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ..ﮈﺍﮐﭩﺮ ﻣﻮﻣﻨﮧ ﻧﮯ ﮔﮩﺮﯼ ﺳﺎﻧﺲ ﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﺣﻮﺍﺱ ﺑﺎﺧﺘﮧ ﺑﯿﮕﻢ ﺍﻧﻮﺍﺭ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮑﯽ ﺑﯿﺎﮨﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﻧﺎﺯﯾﮧ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻣﻮﺯﻭﮞ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺟﻮﮌﻧﮯ ﻟﮕﯽﺩﯾﮑﮭﯿﮟ ﺑﯿﮕﻢ ﺍﻧﻮﺍﺭ ﺁﭖ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﭨﮭﯿﮏ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﯽ ﮨﻮ ﮔﺎ ﺟﯿﺴﺎ ﺁﭖ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ .. ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﺁﭖ ﮐﯽ ﭼﻬﻮﭨﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﭘﺮﺩﮦ ﺩﺍﺭ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺁﻓﺘﺎﺏ ﻭ ﻣﺎﮨﺘﺎﺏ ﺗﮏ ﺳﮯ ﭘﺮﺩﮦ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﺮﺍ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﺳﮯ ﺁﮔﺎﮨﯽ ﺩﯾﻨﯽ ﮨﮯ ..ﮈﺍﮐﭩﺮ ﻣﻮﻣﻨﮧ ﺧﻮﺩ ﺑﮭﯽ ﺳﻤﺠﮫ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﮐﮧ ﯾﮧ ﮐﺲ ﻗﺪﺭ ﻧﺎﻗﺎﺑﻞ ﯾﻘﯿﻦ ﺻﻮﺭﺗﺤﺎﻝ ﮨﮯ ﺧﺼﻮﺻﺎً ﺍﺗﻨﮯ ﻭﺿﻊ ﺩﺍﺭ ﺧﺎﻧﺪﺍﻧﯽ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺗﻮ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﺴﯽ ﻭﯾﺴﯽ ﺑﺎﺕ ﺳﻨﻨﺎ ﻣﻮﺕ ﮨﮯ ﭼﮧ ﺟﺎﺋﯿﮑﮧ ﺑﺎﺕ ﺑﻬﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﮨﯽ ﭘﺮﺩﮮ ﮐﯽ ﭘﺎﺑﻨﺪ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮨﻮ ..ﮈﺍﮐﭩﺮ ﻣﻮﻣﻨﮧ ﻧﮯ ﺍﻟﭩﺮﺍ ﺳﺎﻭﻧﮉ ﺍﻭﺭ ﯾﻮﺭﯾﻦ ﮐﯽ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﺣﺎﻝ ﻣﺎﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺭﮐﮫ ﺩﯼ ..ﺍﺏ ﺍﺱ ﻣﺴﺌﻠﮯ ﮐﯽ ﺗﺸﺨﯿﺺ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﻼﻡ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ14 .. ﺳﺎﻟﮧ ﺑﯿﭩﯽ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﻣﻌﺎﺋﻨﮧ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭﯽ ﺍﻧﮕﻠﯿﺎﮞ ﻣﺮﻭﮌ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ .. ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﺁﻭﺍﺯ ﺭﻭ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ .. . ﮈﺍﮐﭩﺮ ﻧﮯ ﺍﻧﺪﺭﻭﻧﯽ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﻮﻝ ﮐﺮ ﺍﻧﺪﺭ ﺟﮭﺎﻧﮑﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻭﺍﻟﺪﮦ ﮐﻮ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﺳﮯ ﻣﻞ ﻟﮯ ..ﮈﺍﮐﭩﺮ ﻣﻮﻣﻨﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﻓﺲ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﭘﺲ ﺁ ﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮐﺮﺳﯽ ﭘﺮ ﮈﻫﮯ ﺳﯽ ﮔﺌﯿﮟ . . ﺍﻓﺴﻮﺱ ﺍﻭﺭ ﺭﻧﺞ .. ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﺣﺎﻝ ﻭﺍﻟﺪﮦ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮨﻤﺪﺭﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﻮ ﮔﺎ ﮐﯽ ﺗﺠﺴﺲ ﺁﻣﯿﺰ ﺍﻟﺠﮭﻦ ﻟﺌﮯ .. ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﺮﺳﯽ ﮐﯽ ﭘﺸﺖ ﺳﮯ ﺳﺮ ﭨﮑﺎﺋﮯ ﮨﻮﻟﮯ ﮨﻮﻟﮯ ﮐﺮﺳﯽ ﺟﻬﻼﺋﮯ ﮔﺌﯿﮟ .. ﭘﯿﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﺧﻔﯿﻒ ﺳﯽ ﺣﺮﮐﺖ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭﻭﻧﯽ ﺍﺿﻄﺮﺍﺏ ﮐﺎ ﭘﺘﺎ ﺩﯾﺘﯽ ﺗﮭﯽ ..ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮ ﮔﺰﺭﯼ ﺗﻮ ﺍﻧﺪﺭﻭﻧﯽ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﺮ ﺩﺳﺘﮏ ﮨﻮﺋﯽ .. ﮈﺍﮐﭩﺮ ﺻﺎﺣﺒﮧ ﻧﮯ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﮐﮭﻮ ﻟﯿﮟ .. ﺟﮭﻮﻟﺘﯽ ﮐﺮﺳﯽ ﮐﻮ ﺭﻭﮐﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﻭﻗﺎﺭ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎ ..ﯾﺲ .. ﮐﻢ ﺍﻥﺑﮯ ﺁﻭﺍﺯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﻼ .. ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﻤﺮﮮ ﺳﮯ ﮨﻠﮑﯽ ﺳﯽ ﺳﺴﮑﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺁﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﺑﻨﺪ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ .. ﻣﺮﯾﻀﮧ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﯽ ﻭﺍﻟﺪﮦ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﻦ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺋﯿﮟ ..ﺳﺮ ﺟﮭﮑﺎﺋﮯ ﺷﺮﻣﺴﺎﺭ ﺳﯽ .. ﺳﮩﺎﺭﺍ ﻟﮯ ﮐﺮ ﭼﻠﺘﯽ ﻣﺎﮞ .. ﺟﻮ ﻋﻤﺮ ﺭﺳﯿﺪﮦ ﺗﻮ ﻧﮧ ﺗﮭﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﮐﭽﮫ ﮨﯽ ﭘﻞ ﻣﯿﮟ ﺑﻮﮌﮬﯽ ﺩﮐﮭﻨﮯ ﻟﮕﯽ ﺗﮭﯽ …ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻣﺎﮞ ﺑﯿﭩﯽ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻭﭘﭩﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﯽ ﺳﺨﺘﯽ ﺳﮯ ﻟﭙﯿﭧ ﻟﺌﮯ ﺗﮭﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﻧﺎﺩﺍﻧﺴﺘﮕﯽ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﻏﯿﺮ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﺳﻤﺠﮫ ﺭﮨﯽ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺍﻭﺟﮭﻞ ﮨﻮ ﺟﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﮨﻮﮞ ..ﮐﭽﮫ ﺑﻮﺟﮭﻞ ﭘﻞ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﮨﻮﺋﮯ .. ﮈﺍﮐﭩﺮ ﻧﮯ ﺍﯾﺴﮯ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﮐﯿﺲ ﺍﭘﻨﯽ ﺭﻭﺯ ﻣﺮﮦ ﭘﺮﯾﮑﭩﺲ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮐﻬﮯ ﺗﮭﮯ .. ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﮐﻢ ﻋﻤﺮ ﻣﺮﯾﻀﮧ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﺑﺘﺪﺍﺋﯽ ﺻﺪﻣﮯ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ . ﺍﺏ ﻭﮦ ﺻﺪﻣﮧ ﮨﻠﮑﺎ ﮨﻮ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ .. ﮈﺍﮐﭩﺮ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﮐﯽ ﺣﺴﺎﺱ ﻋﻮﺭﺕ ﭘﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺮﻭﻓﯿﺸﻨﻞ ﺍﺯﻡ ﻧﮯ ﻏﻠﺒﮧ ﭘﺎ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ ..ﺍﯾﮏ ﭘﺮﻭﻓﯿﺸﻨﻞ ﮐﺎ ﯾﮧ ﮐﺎﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻣﺮﯾﻀﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺭﻭﻧﮯ ﺩﮬﻮﻧﮯ ﻟﮕﮯ .. ﺑﻠﮑﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺻﺪﻣﮯ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺪﺩ ﻓﺮﺍﮨﻢ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ..ﺁﺧﺮ ﮐﺎﺭ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﯽ ﻭﺍﻟﺪﮦ ﻧﮯ ﺣﻮﺻﻠﮧ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﺮﺍﺋﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﻀﺒﻮﻁ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﮔﻮﯾﺎ ﮨﻮﺋﯽﮈﺍﮐﭩﺮ ﺻﺎﺣﺐ ﻣﯿﺮﮮ ﺷﻮﮨﺮ ﺍﻭﺭ ﺳﺴﺮ ﮐﺎ ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﺍﻋﻠﯽ ﻣﻘﺎﻡ ﮨﮯ … ﺁﭖ ﺟﺎﻧﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺴﺮ ﺍﮐﺮﺍﻡ ﺑﯿﮓ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﻮﻧﺴﻠﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﺷﻮﮨﺮ ﺍﻧﻮﺍﺭ ﺑﯿﮓ ﺻﺎﺣﺐ ﺍﺱ ﺩﻓﻌﮧ ﭘﺎﺭﭨﯽ ﭨﮑﭧ ﭘﺮ ﺍﻟﯿﮑﺸﻦ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ .. ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﮐﺎ ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻣﻘﺎﻡ ﮨﮯ ﮨﻢ ﺳﺐ ﺧﺼﻮﺻﺎً ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﮐﮯ ﻣﺮﺩ ﯾﮧ ﺫﻟﺖ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﭘﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ . ﯾﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﺱ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﺎ ﮔﻼ ﺩﺑﺎ ﺩﯾﮟ ﮔﮯ ﯾﺎ ﺧﻮﺩ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺧﺘﻢ ﮐﺮ ﻟﯿﮟ ﮔﮯ …ﯾﮧ ﮐﮩﺘﮯ ﮐﮩﺘﮯ ﻣﺴﺰ ﺍﻧﻮﺍﺭ ﮐﺎ ﺳﺎﻧﺲ ﭘﮭﻮﻝ ﮔﯿﺎ .. ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺘﻼﺷﯽ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺍﺩﮬﺮ ﺍﺩﮬﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ .. ﮈﺍﮐﭩﺮ ﻧﮯ ﺍﻥ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﺳﻤﺠﮫ ﻟﯿﺎ .. ﻭﮦ ﺍﭨﻬﯿﮟ . ﺭﻭﻡ ﻓﺮﯾﺞ ﮐﺎ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﻮﻻ ﭨﮭﻨﮉﮮ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﮔﻼﺱ ﺑﻬﺮﺍ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺰ ﺍﻧﻮﺍﺭ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺭﮐﮭﺎ .. ﺳﻮﺍﻟﯿﮧ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﻣﺴﺰ ﺍﻧﻮﺍﺭ ﮐﯽ ﺑﮍﯼ ﺑﯿﭩﯽ ﻧﺎﺯﯾﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ .. ﻣﺒﺎﺩﺍ ﺍﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﭘﯿﺎﺱ ﻟﮕﯽ ﮨﻮ .. ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻧﻔﯽ ﻣﯿﮟ ﺳﺮ ﮨﻼ ﺩﯾﺎ …. ﻣﺴﺰ ﺍﻧﻮﺍﺭ ﻧﮯ ﮐﺎﻧﭙﺘﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﮔﻼﺱ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ , ﮨﺎﺗﻬﻮﮞ ﮐﯽ ﮐﭙﮑﭙﺎﮨﭧ ﺍﺗﻨﯽ ﻭﺍﺿﺢ ﺗﻬﯽ ﮐﮧ ﭘﺎﻧﯽ ﺑﻠﻮﺭﯾﮟ ﮔﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﮨﻠﮑﻮﺭﮮ ﮐﻬﺎﺗﺎ ﻧﻈﺮ ﺍﺗﺎ ﺗﻬﺎ . ﻟﺒﻮﮞ ﺗﮏ ﮐﮯ ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﻪ ﭘﺎﻧﯽ ﭼﻬﻠﮑﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﮕﻢ ﺍﻧﻮﺍﺭ ﮐﺎ ﺩﺍﻣﻦ ﺁﻧﺴﻮﻭﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﻪ ﺳﺎﺗﻪ ﭘﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﺑﻬﯽ ﺗﺮ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ .. ﺑﯿﮕﻢ ﺍﻧﻮﺍﺭ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﭨﮑﮯ ﺁﻧﺴﻮﺅﮞ ﮐﮯ ﮔﻮﻟﮯ ﮐﻮ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﺩﻭ ﺗﯿﻦ ﺑﮍﮮ ﮔﮭﻮﻧﭧ ﺑﻬﺮ ﮐﺮ ﻧﯿﭽﮯ ﺍﺗﺎﺭﺍ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺳﮯ ﺳﻠﺴﻠﮧﺀ ﺗﮑﻠﻢ ﺟﻮﮌﺍ ..ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺳﻠﻤﮧ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺳﺐ ﮐﯿﺴﮯ ﮨﻮﺍ .. ﺗﻢ ﺗﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﻧﮑﻠﯽ .. ﺳﮑﻮﻝ ﺗﮏ ﺗﻮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁﺗﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﻮﮞ .. ﭘﮭﺮ ﯾﮧ ﺳﺐ ﮐﺐ ﮨﻮﺍ .. ﮐﯿﺴﮯ ﮨﻮﺍﺳﻠﺴﻠﮧﺀ ﺗﮑﻠﻢ ﺟﻮﮌﺍ ..ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺳﻠﻤﮧ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺳﺐ ﮐﯿﺴﮯ ﮨﻮﺍ .. ﺗﻢ ﺗﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﻧﮑﻠﯽ .. ﺳﮑﻮﻝ ﺗﮏ ﺗﻮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁﺗﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﻮﮞ .. ﭘﮭﺮ ﯾﮧ ﺳﺐ ﮐﺐ ﮨﻮﺍ .. ﮐﯿﺴﮯ ﮨﻮﺍ ..ﺑﯿﭩﯽ ﻧﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﺐ ﺟﺐ ﺁﭖ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺗﻮ ﺳﺎﺗﮫ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﺎﻣﻮﮞ ﺯﺍﺩ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺁ ﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ ..ﺁﮦ .. ﻣﺴﺰ ﺍﻧﻮﺍﺭ ﮐﮯ ﺁﻧﺴﻮ ﺑﮯ ﻗﺎﺑﻮ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺭﺧﺴﺎﺭﻭﮞ ﭘﺮ ﻟﮍﻫﮑﻨﮯ ﻟﮕﮯ .. ﻣﯿﺮﮮ ﻣﺎﮞ ﺟﺎﺋﮯ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﻘﺐ ﻟﮓ ﮔﺌﯽ .. ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﮭﺎﺑﯽ ﮐﻮ ﮐﻮ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﯿﭩﯽ ﺍﮐﯿﻠﯽ ﮨﮯ .. ﭘﮍﮪ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ .. ﺯﺭﺍ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﻨﺎ .. ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﻬﺎﺑﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﻮ ﺑﮭﯿﺞ ﺩﯾﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﮐﮧ ﺟﺎﻭ ﺑﮩﻦ ﮐﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﻨﺎ .. ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﭘﻞ ﮐﺮ ﺑﮍﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﺑﮍﮮ ﺑﮭﯽ ﮐﯿﺎ 14 ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﯿﭩﯽ ﺍﻭﺭ 16 ﺳﺎﻝ ﮐﺎ ﺑﮭﺎﻧﺠﺎ … ﮨﻢ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺑﮩﻦ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮨﯽ ﺳﻤﺠﻬﺘﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺎﻧﺘﮯ ﺭﮨﮯ .. .ﻣﯿﺮﮮ ﺑﻬﺘﯿﺠﮯ ﻓﮩﺪ ﻧﮯ ﺳﻠﻤﮧ ﮐﻮ ﭼﻬﯿﮍﺍ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﺰﺍﺣﻤﺖ ﮐﯽ .. ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﻣﺰﺍﺣﻤﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﻓﮩﺪ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺳﻠﻤﮧ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﮯ ….ﮈﺍﮐﭩﺮ ﻧﮯ ﻓﻮﺭﺍ ﺍﺛﺒﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺳﺮ ﮨﻼﯾﺎ ﮐﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﮐﺴﯽ ﻣﺴﺌﻠﮯ ﮐﺎ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﺣﻞ ﺳﻮﺟﮫ ﮔﯿﺎ ﮨﻮ .. ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻟﯿﮟ . ﯾﮩﯽ ﺑﮩﺘﺮ ﺣﻞ ﮨﮯ ﺑﯿﮕﻢ ﺍﻧﻮﺍﺭ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﯽ ﻓﻮﺭﯼ ﺷﺎﺩﯼ ﮨﯽ ﺍﺱ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﮐﺎ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﺣﻞ ﮨﮯ .ﺑﯿﮕﻢ ﺍﻧﻮﺍﺭ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺳﺮ ﻧﻔﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺑﮯﻗﺮﺍﺭ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺟﻬﭩﮑﺎ .. ﻧﮩﯿﮟ ﯾﮧ ﻣﻤﮑﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﻓﮩﺪ ﺍﻭﺭ ﺳﻠﻤﮧ ﺍﺑﮭﯽ ﺑﮩﺖ ﮐﻢ ﻋﻤﺮ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺧﺎﻧﺪﺍﻧﯽ ﻣﺴﺎﺋﻞ ﺍﯾﺴﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﺎ ﺭﺷﺘﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮐﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮟ ﮔﮯ … ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺴﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﺗﻨﯽ ﮐﻢ ﻋﻤﺮ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺮﻭﺍ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﻮﮞ .. ﺍﻧﻮﺍﺭ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﻮ ﮐﯿﺎ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﺭﺍﺿﯽ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﯽ .. ﺳﺴﺮ ﮐﻮ ﮐﯿﺎ ﺟﻮﺍﺯ ﺩﻭﮞ ﮔﯽ .. ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﮐﯽ ﺍﭨﻬﯽ ﺍﻧﮕﻠﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﯿﺴﮯ ﺭﻭﮎ ﭘﺎﻭﮞ ﮔﯽ .. ﻧﮩﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻧﮩﯿﮟ .. ﯾﮧ ﻧﺎ ﻣﻤﮑﻦ ﮨﮯ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻧﺎﻣﻤﮑﻦ ..ﺑﮯ ﺑﺲ ﻣﺎﮞ ﯾﮑﺪﻡ ﺍﭨﻬﯽ ﺍﻭﺭ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﮐﮯ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﺌﯽ ….. ﻭﮦ ﻣﺎﮞ ﻣﺎﻧﮕﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﮐﮯ ﺩﺭﺟﮯ ﭘﺮ ﺟﺎ ﮐﮭﮍﯼ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻗﯿﻤﺘﯽ ﻟﺒﺎﺱ ﭼﯿﺘﮭﮍﻭﮞ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﺮ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﻔﯿﺲ ﺟﯿﻮﻟﺮﯼ .. ﺑﺪﻧﻤﺎ ﻣﻨﮑﮯ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﻬﯽ ﻭﮦ ﺑﮯ ﺍﻭﺍﺯ ﺁﻧﺴﻮﻭﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﻪ ﺍﯾﮏ ﻣﺴﯿﺤﺎ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﮐﯽ ﻋﺰﺕ ﮐﺎ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ .ﮈﺍﮐﭩﺮ ﻣﻮﻣﻨﮧ ﯾﮑﺪﻡ ﺍﯾﮏ ﻣﺎﮞ ﺑﻦ ﮔﺌﯿﮟ ﺟﻮ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﮐﮯ ﺟﺬﺑﺎﺕ ﺳﮯ ﺑﻬﯽ ﻭﺍﻗﻒ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﮯ ﮐﺮﺏ ﺳﮯ ﺑﻬﯽ .. ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻻﭼﺎﺭ ﻣﺎﮞ ﮐﻮ ﮐﻨﺪﮬﻮﮞ ﺳﮯ ﺗﻬﺎﻡ ﮐﺮ ﺳﮩﺎﺭﺍ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺻﻮﻓﮯ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮭﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺪﺩ ﺩﯼ …. ﭘﻠﯿﺰ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﺻﺎﺣﺒﮧ ﺁﭖ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﻣﺎﮞ ﮨﯿﮟ . ﺍﻭﻻﺩ ﻧﺎﻓﺮﻣﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﮔﻨﺎﮨﮕﺎﺭ ﮨﯽ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮧ ﮨﻮ , ﻣﺎﮞ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﺑﭽﺎﻧﮯ ﮨﯽ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ ﻧﺎ .. ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﺱ ﺑﭽﯽ ﮐﻮ ﮐﯿﺴﮯ ﻣﺮ ﺟﺎﻧﮯ ﺩﻭﮞ .. ﺍﺱ ﺑﺎﻋﺰﺕ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﮐﻮ ﺗﺒﺎﮨﯽ ﺳﮯ ﺑﭽﺎ ﻟﯿﮟ ﺧﺪﺍﺭﺍ ﮐﭽﮫ ﮐﺮﯾﮟ ..ﮈﺍﮐﭩﺮﻣﻮﻣﻨﮧ ﺟﺎﻧﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﮐﮧ ﺟﻠﺪ ﯾﺎ ﺑﺪﯾﺮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﺻﻮﺭﺗﺤﺎﻝ ﮐﺎ ﺳﺎﻣﻨﺎ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ . ﮨﺮ ﺩﻓﻌﮧ ﺍﯾﮏ ﺳﯽ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﮭﯽ ..ﺭﻭﺗﯽ ﺩﮬﻮﺗﯽ ﭘﺮﺩﮮ ﮈﺍﻟﺘﯽ ﻣﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﺷﮑﺎﺭ ﮨﻮﺋﯽ ﻟﮍﮐﯽ ..ﮈﺍﮐﭩﺮ ﻣﻮﻣﻨﮧ ﻧﮯ ﺿﻤﯿﺮ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﭘﺮ ﻟﺒﯿﮏ ﮐﮩﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﺮﺩﮦ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﮐﺎ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﯿﺎ .. ﺿﺮﻭﺭﯼ ﺍﺩﻭﯾﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﮨﺪﺍﯾﺎﺕ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﻠﮑﺘﯽ ﻣﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﺳﮩﻤﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﻣﺮﯾﻀﮧ ﮐﻮ ﺗﺴﻠﯽ ﻭ ﺗﺸﻔﯽ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺭﺧﺼﺖ ﮐﯿﺎ .. ..ﻣﺮﯾﻀﮧ ﮐﻮ ﺭﺧﺼﺖ ﮐﺮ ﮐﮯ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﻣﻮﻣﻨﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﺳﯿﭧ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﺌﯿﮟ .. ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﭘﺮﻭﻓﯿﺸﻨﻞ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﯿﻨﮯﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺣﺴﺎﺱ ﺩﻝ ﺩﻫﮍﮐﺘﺎ ﺗﻬﺎ … ﻭﮦ ﺍﻓﺴﺮﺩﮦ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻗﺪﺭﺕ ﮐﮯ ﺍﻧﺼﺎﻑ ﭘﺮ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﺑﻬﯽ ..ﻭﮦ ﺟﺎﻧﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﻣﺤﺾ ﺍﯾﮏ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ ﯾﮧ ﻭﺍﻗﻌﺎﺕ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺗﺴﻠﺴﻞ ﺗﮭﺎ .. ﺍﻥ ﮐﮯ ﺫﮨﻦ ﻣﯿﮟ ﮔﺰﺭﮮ ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﻭﺍﻗﻌﺎﺕ ﮐﯽ ﺭﯾﻞ ﭼﻠﻨﮯ ﻟﮕﯽ… ﭘﭽﮭﻠﮯ ﺳﺎﻝ ﺍﺳﯽ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﻧﺎﻣﻮﺭ ﻭﮐﯿﻞ ﺍﻭﺭ ﺳﯿﺎﺳﺘﺪﺍﻥ ﺍﻧﻮﺍﺭ ﺑﯿﮓ ﺍﯾﮏ ﺑﺮﻗﻌﮧ ﭘﻮﺵ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﮐﮯ ﮨﻤﺮﺍﮦ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﻣﻮﻣﻨﮧ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁﺋﮯ ﺗﻬﮯ .. ﺍﻧﻮﺍﺭ ﺑﯿﮓ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﮐﺎ ﺗﻌﺎﺭﻑ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺭ ﭘﺎﺭ ﮐﯽ ﻋﺰﯾﺰﮦ ﮐﯽ ﺣﯿﺜﯿﺖ ﺳﮯ ﮐﺮﻭﺍﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﮐﮯ ﮨﺰﺑﯿﻨﮉ ﺑﺎﮨﺮ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺳﻨﮕﯿﻦ ﺑﮭﻮﻝ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ .. ﺍﺏ ﺑﮩﺖ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺷﺮﻣﻨﺪﮦ ﺑﻬﯽ .. ﮈﺍﮐﭩﺮ ﻣﻮﻣﻨﮧ ﻧﮯ ﻣﺤﺘﺮﻡ ﻭﮐﯿﻞ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﻮ ﺁﻓﺲ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﻮ ﮐﮩﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﺮﯾﻀﮧ ﮐﻮ ﮐﻤﺮﮦ ﻣﻌﺎﺋﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﺁﺋﯿﮟ .. ﻭﮨﺎﮞ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﺯﺭﺍ ﺳﯽ ﮨﻤﺪﺭﺩﯼ ﭘﺎ ﮐﺮ ﭘﮭﻮﭦ ﭘﮭﻮﭦ ﮐﺮ ﺭﻭﻧﮯ ﻟﮕﯽ .. ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﺧﺎﻭﻧﺪ ﮐﻮ ﺑﺎﮨﺮ ﺑﮭﺠﻮﺍﻧﮯ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﺧﺮﺍﺟﺎﺕ ﺍﻥ ﻭﮐﯿﻞ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺍﺩﺍ ﮐﺌﮯ ﮨﯿﮟ .. ﻣﯿﺮﺍ ﺷﻮﮨﺮ ﺍﺳﮯ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻧﯿﮑﯽ ﺍﻭﺭ ﺧﻠﻮﺹ ﺳﻤﺠﮭﺘﺎ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮧ ﺳﺐ ﺍﺱ ﺳﻮﺩﮮ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﻥ ﻣﻌﺰﺯ ﻭﮐﯿﻞ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ . ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﺎ ﻭﯾﺰﮦ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺟﺎﻧﺐ ﺑﯿﮉ ﺭﻭﻡ ﮐﺎ ﻭﮦ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﺟﺲ ﺳﮯ ﮔﺰﺭ ﮐﺮ ﮨﯽ ﻭﮦ ﻭﯾﺰﮦ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﺴﺘﻘﺒﻞ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﻻ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ . ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻧﺪﺭ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﺴﺘﻘﺒﻞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺁﭖ ﻗﺮﺑﺎﻥ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮐﯿﻞ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﺎ ﺗﺠﻮﯾﺰ ﮐﺮﺩﮦ ﺳﻮﺩﺍ ﻣﻨﻈﻮﺭ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ .. ﺍﮔﺮ ﺍﺏ ﺑﻬﯽ ﮐﺴﯽ ﻭﻗﺖ ﻣﯿﮟ ﻭﮐﯿﻞ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﻮ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﮬﻤﮑﯽ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺷﻮﮨﺮ ﻭﺍﭘﺲ ﺁ ﺟﺎﺋﮩﮯ ﮔﺎ ..ﮈﺍﮐﭩﺮ ﻣﻮﻣﻨﮧ ﻗﺪﺭﺕ ﮐﮯ ﺍﻧﺼﺎﻑ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ …. .. ﻣﮑﺎﻓﺎﺕ ﻋﻤﻞ … ﯾﮩﯽ ﺗﻮ ﮨﮯ… ﺑﺎﭖ ﮐﺎ ﭘﺮﺍﻧﺎ ﻗﺮﺽ ﺁﺝ ﺑﯿﭩﯽ ﭼﮑﺎ ﮐﺮ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ..
پاکستان کی موبائل فون کمپنیز چور نہیں ڈکیت ہیں
دبئی سے آنے والی ایک پاکستانی خاتون نے یہ میسیج کیا ہے آپ بھی ملاحظہ فرمایں
پاکستان کی موبائل فون کمپنیز چور نہیں ڈکیت ہیں اور عوام مظلوم نہیں جاہل ہیں جو ان کو چیلنج نہیں کرتے۔ گزشتہ ماہ پاکستان کا سفر کیا۔ ایئر پورٹ پر اترتے ہی موبائل سم خریدی۔ موبائل میں سم ڈالی اور =/3000 روپے کا بیلینس کروایا۔ گاڑی میں بیٹھ کر ایک کال کی، کال کے فوری بعد ایک مسیج آیا۔ U فون نے مجھے پیغام بھیجا کہ اس کال کے عوض آپ کے =/15 روپے کٹ گئے لیکن انوکھی بات یہ تھی کہ ٹیکس ان کے علاوہ تھا۔ میں نے نمائندہ کو فون کیا علم ہوا 11 روپے کی کال تھی 4 روپے ٹیکس تھا۔ نمائندہ نے مجھے بیوقوف بناتے ہوئے کہا کہ آپ نے دوسرے نیٹ ورک پر بات کی اس لئے کال کی قیمت اور ٹیکس کی رقم ذائد ہے۔ میں نے نمائندے سے پوچھا کہ کیا میں نے انڈین نیٹ ورک پر کال کی؟ یا پھر آپ پاکستان کا نیٹ ورک نہیں ہیں۔ سوال سے سوال نکلے علم ہوا کہ جس رقم تین ہزار کا میں نے بیلنس کروایا اس میں سے بھی 750 روپے ٹیکس کاٹ لیا گیا۔ اب میں مکمل طور پر چپ ہو گئی اور نمائندہ ہیلو ہیلو کرکے فون بند کر گیا۔
میں یہ سوچ رہی تھی کہ ایک ہی رقم پر دو بار ٹیکس اس ملک کو تو سوپر پاور ہونا چاہیے کیونکہ میں گزشتہ 10 سال سے Du اور اتصلات کی سروس استمعال کر رہی ہوں۔ اتصلات میں میرا سم 5 ہے، میں 100 درہم کا بیلنس کرواؤں تو 125 درہم مجھے ملتے ہیں اور ساتھ انٹرنیشنل 120 منٹ فری ملتے ہیں۔ اور سو درہم کا بیلنس ایک ماہ کے لئے کافی ہوتا ہے۔ جبکہ انٹرنیٹ کے لئے مجھے 30 روپے میں انلمیٹڈ وائی فائی، 10 جی بی سپیڈ ملتا ہے۔ پاکستان کی موبائل کمپنیاں اور حکومت مل کر لوگوں کو اتنی بری طرح لوٹ رہی ہیں کہ جس کی مثال قومشعیب میں بھی نہیں ملتی۔